گلبرگہ۔چوبیس ڈسمبر۔ ای میل۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے کرناٹک کی بومئی حکومت پر ریاست کو یوپی ماڈل بنانے کا الزام عائد کیا۔ جس میں مذہبی آزادی کو چھینا جا رہا ہے۔ کرناٹک اسمبلی میں انسداد تبدیلی مذہب بل کی منظوری کو ایس ڈی پی آئی نے ایک غیر آئینی قدم قرار دیا۔ اسکے خلاف آج ریاست بھر میں ایس ڈی پی آئی نے احتجاجی مظاہرے کئے۔

گلبرگہ ڈی سی آفس پر بھی آج دوپہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجیوں نے بومئی حکومت پر کرناٹک کو بنانا ریپبلک بنانے کا الزام عائد کیا۔ ایس ڈی پی آئی لیڈروں نے سوال کیا کہ جب کہ آئی پی سی تعزیزات ہندمیں جبری تبدیلی مذہب کیلئے کئی ایک دفعات موجود ہیں تو پھر بومئی حکومت کو یہ بل لانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

ایس ڈی پی آئی لیڈروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت صرف ہندو مسلم کارڈ کھیلنے اور پولارائزیشن کرنے کیلئے اس طرح کے قانون بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپنے کور ہندو ووٹ بینک کو بچانے کیلئے اس طرح کے قوانین بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی لیڈروں نے تعجب کا اظہار کیا کہ کسی شخص کو تبدیلی مذہب کیلئے ڈپٹی کمشنر سے رجوع ہونا پڑے گا۔ اس طرح کا قانون، آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے بھی خلاف ہے۔ رائٹ ٹو پرائیویسی، رائٹ ٹو ریلیجن کے بھی خلاف ہے۔

ایس ڈی پی آئی لیڈروں نے سوال کیا کہ حالیہ دنوں میں جب گرجا گھروں پر حملے ہو رہے تھے۔ مساجد پر حملے ہو رہے تھے۔ پولیس اسٹیشنوں میں دلتوں کو پیشاب پلائے جانے کی خبریں سامنے آئی تھی، تب حکومت خواب غفلت میں سوئی ہوئی تھی، اب مذہب کے نام پر سیاست کر رہی ہے۔

ایس ڈی پی آئی لیڈروں نے اس بل معاملے پر کانگریس اور جے ڈی ایس کو بھی نشانہ بنایا۔ اسمبلی میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ سدرامیا نے ہی اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں اس بل کی تیاری کیلئے لاء کمیشن کو سفارش کی تھی۔ اب اسی بل کو مزید اپ ڈیٹ کر کے بی جے پی نے اسمبلی میں پیش کیا۔ اس طرح کانگریس بھی اس بل میں پوری طرح سے ملوث ہے، جبکہ اسمبلی میں بل کی پیشی کے دوران غیر حاضر رہ کر جے ڈی ایس نے بھی بی جے پی کا ساتھ دیا ہے۔ اس طرح سے تینوں جماعتیں ایک ہی حمام کے ننگے ہیں۔

ایس ڈی پی آئی نے انتباہ بھی دیا کہ اگر سے کونسل میں بھی یہ بل منظور ہوتا ہے تو اس کے خلاف ریاست گیر احتجاج کیا جائیگا اور اس کو عدالت میں چیلنج کیا جائیگا